Tuesday, August 13, 2013

ہندوستان کا جنگی جنون



ہندوستان کا جنگی جنون
امریکی حکومت نے مارچ ٢٠١٤ تک افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلانے کا اعلان کیا ہے اور ان کی بہ حفاظت واپسی تب ہی ممکن ہے جب ان کی جگہ کوئی متبادل فوج افغانستان میں موجود ہو، جہاں تک افغان نیشنل آرمی کا تعلق ہے تو وہ اس قابل نہیں کہ افغان طالبان کا مقابلہ کرسکیں، اس خطرے کے پیش نظر پچلھے دو تین سالوں میں مختلف زاویوں سے اس مسلے کو حل کرنے کی کوششیں کی گئیں جیسے کہ طالبان سے مذاکرات اور ان کو حکومت میں شامل کرنے کے فارمولے بعض معتبر ذرائع کے مطابق طالبان رہنماؤں کو رشوت دیکر ساتھ ملانے کی بھی سعی کی گئی بعد میں معلوم ہوا کہ جن کو ڈالرز دیے گئے تھےوہ جعلی رہنما تھے.
حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے ہندوستان نے افغانستان میں اپنی افواج اور بدنام زمانہ را ایجنٹس کی تعداد بڑھانی شروع کی تاکہ امریکہ ان کو بطور متبادل قوت تمام اختیارات سونپ جائے اور یوں ہندوستان پاکستان کو دونوں اطراف سے جنگ میں الجھا سکے اس مقصد کے لئے ہندوستان نے جہاں افغانستان میں ٢١ قونصلیٹ قائم کئے وہاں ١١ جنگی ہوائی اڈوں کا نظم و نسق بھی سنبھالا ہوا ہے نیز موساد اور خاد (افغانستان کی خفیہ ایجنسی ) کیساتھ ملکر رام نامی خفیہ دہشت گرد تنظیم کی سرپرستی بھی کررہا ہے اس تنظیم کا کام پاکستان کے قبائلی علاقوں، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر دہشت گردی کروانا اور نسلی، لسانی و مسلکی بنیادوں پر تفرقہ ڈالنا اور پاکستان کو کمزور کرنا ہے. ہندوستان اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے. اب اس کو انتظار ہے کہ کسی طور پاکستان کوبدنام کرکے جنگی جواز پیدا کیا جائے. کبھی بے گناہ کشمیریوں کو دہشت گرد کہہ کر شهید کیا جارہا ہے تو کبھی ایل - او - سی پر خود اپنے فوجیوں کو قتل کرکے پاکستان کو بدنام کیا جارہا ہے-
دوسری طرف وہ پاکستانی میڈیا میں موجود چند غداروں کے ذریعے پاک فوج اور آئی-ایس-آئی کی کردار کشی کررہا ہے تاکہ پاک فوج اورعوام میں نفرت پیدا کی جائے اور یوں حالت جنگ میں پاک فوج کو عوامی حمایت سے محروم کیا جائے.
ہندوستان اپنی تمام تر تیاریوں کیساتھ اب صرف کوئی بہانہ تلاش کررہا ہے اپنی میڈیا کے ذریعےہندوستانی عوام میں جنگی جنون بھڑکا رہا ہے یہ سوچ کر کہ پاکستان کو خدا نخواستہ ہمیشہ کے لئے ختم کردینگے.
مگر الله کی تدبیرکچھ اور ہے. ہندوستان جس کو تر نوالہ سمجھ رہا ہے وہ اس کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگا افغانستان میں جس فوج کو وہ پاکستان پر حملے کے لئے جمع کر رہا ہے وہ افغان طالبان کے لئے نشانہ بازی کی مشق کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ان کی سپلائی لائن پاکستان سے ہوکر گزرتی ہے عدم رسد کے باعث وہ افغانستان میں محصور ہوکر رہ جائینگے. دوسری طرف کشمیری مجاہدین بھی اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھائیںگے نیز ہندوستان میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے لئے بھی یہ سنہری موقع ہوگا. رہی سہی کسر انشاءاللہ پاک فوج اور پاکستانی عوام کی قربانیوں سے پورا ہوجائیگا.
اور یوں ہندوستان کو فتح کرنے کی جو خوشخبری آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ و سلم نے غزوہ ہند کے نام سےدی تھی وہ پوری ہوجائیگی.
اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس خوشخبری پر یقین کرکے کامیاب ہوتھا ہے اور کون امن کی آشا اور باہمی تجارت کے منصوبوں کے جال میں پھنس کر اپنی عاقبت برباد کرتا ہے.
                     

Tuesday, August 6, 2013

We Like Imported Things & Governors!




Imported Things & Governors  By Saira Bano Shah



It is a fact that we Pakistani feel very proud to announce to others that we have imported things. No matter what it is we exaggerate, boast and claim that even the cheapest slippers we bought are actually imported. Well here we go for the selection of governor Punjab. Do you know who he is? Well let me tell you with pride (and I really mean pride) that our prime minister has chosen an imported governor named Chaudhary Mohammad Sarwar (oh no Chaudhary Sahib has nothing to do with Chaudhary Shujaat Huassain). And do you know where has he been imported from??? Well he has been imported from Britain. 

Want a background check? He shifted to Britain during the year 1976; actually he had a small shop in Murree Hills before that. Well when he shifted to Glasgow he built an empire out of that small store type shop where he worked as a whole seller. After becoming strong financially and updating his status he started taking part in Britain Politics and in 1992 he became a counselor from Labor Party's platform. After that in 1997 he became the first ever Muslim Pakistani member of the british parliament and hence made a historic record there.

Well I think if our PM has chosen him as a governor he must have served Mr. Nawaz Sharif and his family well when they went to Britain during his counselor-ship that he has been given preference over thousands of capable Pakistani living here and not abroad. But since we like imported things specially the Punjabis like them the most and boast about it may be the PM thought to gift them an imported governor. 

Whether he knows Pakistani Politics well or not time will teach him a good lesson and also the public. Hope he brings a change here since he had been an MPA of British Parliamentarian Assembly and Congrats to Punjab. Perhaps I should wish them good luck as well because once more I saw the uncaring and ruthlessness of the selected PM who is enjoying his trip to KSA while the people here are drowning under floods with their homes, children and cattle. May God Help This Nation. 

Saturday, August 3, 2013

ہم اپنے تمام قارئین کے انتہائی مشکور ہیں کہ انہوں نے ہماری اس کاوش کو پسند فرمایا.

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی قلم سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں تو پاک پٹریاٹس کی ٹیم آپ کو اپنے فورم میں خوش آمدید کہتی ہے. 
آپ اپنے آرٹیکل، تجزیے، کارٹون، سچی کہانیاں ہمیں ہماری ای میل پر بجھوا سکتے ہیں. 
pak.patriots2013@gmail.com
نیک خواہشات کے ساتھ 
ٹیم پاک پٹریاٹس  

Friday, August 2, 2013

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے



یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے 


صدارتی انتخابات قبل از وقت اس لیے کرانے گئے تا کہ میاں  صاحب عمرہ ادا کرسکیں اور عمرہ اسلیے تاخیر کا شکار ہوا کیونکہ کہ جان کیری نے شرف ملاقات بخشنا چاہا. اس بات سی ایک معمولی فہم والا انسان بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کیلیے امریکہ کی دوستی کتنی اہمیت کی حامل ہے.
پچلھی ایک دہائی سے جاری ڈرون حملے ہماری خود مختاری کا مزاق اڑا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے حکمران  اقتدار کے استحکام کیلیے ان لوگوں کو منارہی ہے جو بقول انکے دہشت گرد ہیں جو متعدد بار پاکستان کو ٹھکرے ٹھکرے کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں. ملکی میڈیا پر غداروں کا راج ہے پاکستانی قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ سب ملکر آخر بے وقوف کس کو بنا رہے ہیں. کوئی آکر ترکی والا اسلام لانا چاہتا ہے تو کسی کو منبر و محراب سے شکایت ہے. آخر بتا کیوں نہیں دیتے کہ سب کا اصل مدعا کیا ہے. 
کوئی کسر رہ گئی ہو تو بتادو ہمارے فوجی جوانوں کو شهید کیا جارہاہے. ماؤں بہنوں کی عزت لوٹی جارہی ہے. ہمارے پچوں کو قتل کیا جارہاہے. تعلیم، روزگار،صحت کی سہولیات ناپید ہیں مہنگائی اپنے عروج پر ہے. خارجہ پالیسی کا یہ حال ہےکہ افغانستان میں ہمارے پرچم کو آگ لگایا گیاجبکہ اسی افغانستان میں ہندوستان کےاکیس قونصلیٹ کام کررہے ہیں. ایران ہم سسے ناراض ہے سعودی عرب سے ہمیں نکالا جارہا ہے پاکستانی دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں شرم کے مارے اپنی شناخت چپھاتے پھرتے ہیں. اس سے مزید اورکیا ہوسکتا ہے.
    
ہم پاکستانی تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں مگر برابری کی بنیاد پر.
جسطرح ہم دوسروں کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اسی طرح ہماری خود مختاری کا بھی احترام کیا جائے.
ہندوستان سے تجارت بھی کرو دوستی بھی رکھو لیکن سب سی پہلے کشمیر باقی سب بعد میں.
ملک کا سب سی بڑا مسلہ لوڈ شیڈنگ نہیں بلکہ باہمی اعتماد کا فقدان اور فرقہ واریت ہے جس سی ہمارے دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں.
ان سب مسائل کا حل صرف لا الہ میں ہے.   



Thursday, August 1, 2013

زاہدان شہر اور عامر لیاقت

زاہدان شہر اور عامر لیاقت

زاہدان شہر اور عامر لیاقت 

ایران کے شہرزاہدان کا پرانا نام دوزداب تھا جسکے معنی ہیں پانی کے چور یا آپ اس کو بحری قزاق بھی کہہ سکتے ہیں.
یہ شہر پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد سے صرف ٢٥ میل کے فاصلے پر ہے یہاں پر بلوچی فارسی اور کسی حد تک پشتو بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے. پاکستان کی آزادی سے قبل افغانستان کے تاجر متحدہ ہندوستان جبکہ سکھ اور ہندو تاجر موجودہ پختونخواہ، بلوچستان، افغانستان سمیت ایران کے مذکورہ شہر دوزداب تک تجارتی غرض سے جاتے تھے. اپنے مخصوص حلیئے کی وجہ سے کم تعداد میں ہونے کے باوجود شہر بھر میں نمایاں نظر آتے.

دوزداب شہر کی تقدیر اس وقت بدلی جب شاہ ایران رضا شاہ شہر کے دورے پر آئے. اور اس نے سادہ لباس میں ملبوس لمبی دھاڑیوں والے یہ لوگ جنہوں نے سروں پر پگڑیاں بھی باندھی ہوئی تھیں دیکھا تو بول اٹھا کہ یہ تو پورا شہر ہی زاہدوں (متقی اور پرہیزگار) لوگوں کا ہے بغیر تحقیق کے ہی بحری قزاقوں کے شہر کو زاہدان بنادیا.
انسانی تاریخ میں اسطرح کی کئی مضحکہ خیز غلطیاں ہوئیں کہ جن کو بعد میں بھی درست نہیں کیا گیا. اب اسی طرح کی غلطی ہمارے ملک میں بھی ہوئی جب ایک بھانڈ نے کسی عالم کا روپ دھارا اور ہم نے بھی بغیر تحقیق کے ہی اسکو عالم ماننا شروع کردیا اب اسکی مرضی وہ رمضان کا مذاق اڑائےیاانسان کا کیونکہ بھانڈ (مسخرے ) کا کام ہی مذاق اڑانا ہوتا ہے.
مداری تب ہی بندر کو نچاتا ہے جب اسکے ارد گرد مجمع ہو ورنہ بندر کو کیا پڑی ہے خواہ مخواہ خود کو ہلکان کرتا رہے.
ہم اگر بندر کا تماشہ دیکھنا چھوڑ دیں تو کیا خیال ہے وہ پھر ناچے گا. سوچیتے. 

                                                                                                                                                                   

Tuesday, July 30, 2013

زاہدان شہر اور عامر لیاقت

زاہدان شہر اور عامر لیاقت 

ایران کے شہرزاہدان کا پرانا نام دوزداب تھا جسکے معنی ہیں پانی کے چور یا آپ اس کو بحری قزاق بھی کہہ سکتے ہیں.
یہ شہر پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد سے صرف ٢٥ میل کے فاصلے پر ہے یہاں پر بلوچی فارسی اور کسی حد تک پشتو بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے. پاکستان کی آزادی سے قبل افغانستان کے تاجر متحدہ ہندوستان جبکہ سکھ اور ہندو تاجر موجودہ پختونخواہ، بلوچستان، افغانستان سمیت ایران کے مذکورہ شہر دوزداب تک تجارتی غرض سے جاتے تھے. اپنے مخصوص حلیئے کی وجہ سے کم تعداد میں ہونے کے باوجود شہر بھر میں نمایاں نظر آتے.

دوزداب شہر کی تقدیر اس وقت بدلی جب شاہ ایران رضا شاہ شہر کے دورے پر آئے. اور اس نے سادہ لباس میں ملبوس لمبی دھاڑیوں والے یہ لوگ جنہوں نے سروں پر پگڑیاں بھی باندھی ہوئی تھیں دیکھا تو بول اٹھا کہ یہ تو پورا شہر ہی زاہدوں (متقی اور پرہیزگار) لوگوں کا ہے بغیر تحقیق کے ہی بحری قزاقوں کے شہر کو زاہدان بنادیا.
انسانی تاریخ میں اسطرح کی کئی مضحکہ خیز غلطیاں ہوئیں کہ جن کو بعد میں بھی درست نہیں کیا گیا. اب اسی طرح کی غلطی ہمارے ملک میں بھی ہوئی جب ایک بھانڈ نے کسی عالم کا روپ دھارا اور ہم نے بھی بغیر تحقیق کے ہی اسکو عالم ماننا شروع کردیا اب اسکی مرضی وہ رمضان کا مذاق اڑائےیاانسان کا کیونکہ بھانڈ (مسخرے ) کا کام ہی مذاق اڑانا ہوتا ہے.
مداری تب ہی بندر کو نچاتا ہے جب اسکے ارد گرد مجمع ہو ورنہ بندر کو کیا پڑی ہے خواہ مخواہ خود کو ہلکان کرتا رہے.
ہم اگر بندر کا تماشہ دیکھنا چھوڑ دیں تو کیا خیال ہے وہ پھر ناچے گا. سوچیتے.            

Monday, July 29, 2013

معاشرتی کینسر

معاشرتی کینسر 
آج سے چند سال پہلے جب میرے والد صاحب کو کینسر لاحق ہوا تو اس موذی مرض اور اسکی تباہ کاریوں کے بارے میں میری معلومات میں کچھ اضافہ کرگیا. بفضل خدا میرے والدصاحب اب مکمل صحتیاب ہیں لیکن جب بھی انکی اس بیماری کا تذکرہ آتا ہے تو چند سال پہلے کے کرب کو کچھ لمحوں کیلیے ذہن پر مسلط کردیتا ہے. ڈاکٹروں کے مطابق کینسر دراصل خلیوں کے بے تحاشہ تقسیم کا عمل ہے یہ خلیے ہمارے جسم کے دفاعی نظام کو بتدریج کمزور کرنا شروع کرتے ہیں نیز یہ کہ یہ ہماری جسم سے ہی غذاء حاصل کرتے ہیں جبکہ یہ مکمل طور پر ہمارے جسمانی نظام سے آزاد ہوتے ہیں. اگر بروقت انکو روکا یا کاٹ کر علیحدہ نہ کیا جائے تو یہ ہمارے دفاعی نظام پر حاوی ہوکر ہمیں موت کی نیند سلادیتے ہیں. 
جسطرح جسم کا کینسر جسمانی نظام کو تباہ کردیتا ہے بلکل اسی طرح معاشرتی کینسر معاشرتی نظام کو تباہ کردیتا ہے. اس کینسر کا طریق کار بھی وہی ہے یہ معاشرے کوبے تحاشہ تقسیم کردیتا ہے اول لسانی بنیاد پر سندھی، بلوچی ، پھٹان، پنجابی اور کشمیری کے نام پر اور جب وہاں اپنے پنجے گاڑھ لیتا ہے تو پھر شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، وہابی کے نام پر اور یوں یہ تقسیم بٹ، اعوان، گجر، آرائیں تک پہنچ کر معاشرے کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے.
معاشرے کے یہ کینسر زدہ خلیے بھی ملکی نظام کا خوں چوس کر ہی پلتے ہیں اور رفتہ رفتہ ملک کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں. یہ کینسر زدہ خلیے بھی ملکی دفاعی نظام پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں. اور یہ بھی مکمل طور پر ملک کے قانون سے آزاد ہوتے ہیں.
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی بڑ ھوتری کو روکا جائے اور یا پھر ان کو جڑھ سے ہی اکاڑ کر پھینک دیا جائے ورنہ اللہ نہ کرے یہ کینسر اس پاک سرزمین کونابود کر دیگا.   

Summer Beverages

by Saira B. Shah

With the arrival of summer season, every kind of beverages are available in the market according to the taste and demand of the people. People drink more and more water, cold and hot drinks according to the seasonal taste etc. Lime Soda, Coke, Pepsi, Dew, Marinda, Shezan,Milk Shake, Butter-milk (Lassi) etc. are very common beverages that one uses in this hot weather. While water is commonly available everywhere, there are some places where people do not have access to even this common blessing. So whenever you drink water or take any beverages give  thanks to the Almighty for such a great belssing.

Today I am going to give you some good tips on how to make some of the great beverages at home and use it during this summer. First of all Lime Soda is one common drink and the ingredients for  this are commonly available at home. You will need Lemon, Sprite or Seven Up (if you want to make it just like the Lime Soda available in the market otherwise water will do), Ice, Black Salt (Kala Namak) or Chat Masala (you can use chooran as well). Take water in a bowl put 4 to 5 tablespoons lemon juice in it, now put black salt and sugar in it according to your taste (I usually use one teaspoon). Add Ice to it and your lime soda is ready. You can drink it yourself or give it to your kids and serve to the guests.

Lassi or butter-milk is another beverage that is commonly used for adding taste to one's table. It is usually made out of yogurt and water. Some people add in sugar while others use salt start stirring and striking it in a gharoli (round pot) until it has butter coming over its surface, then they drink it ice-cold. Lassi is a traditional Pakistani drink and considered very useful for the stomach and keeps one's digestive system in shape.

Tukhme Rehan or Tukhme Malangan is another useful seed that you can use in this summer in your drinks. Put one tablespoon Tukhme Malangan in some water for about a couple of hours and then make Jam e Shirin or Rooh Afza and add Tukhme Malangan to it. This useful drink will help keep away the thirst and you will feel energized throughout the day.

Milk-shakes of every flavor can be made at home provided you have the required fruits available at home. You can purchase mangoes, strawberries, banana, apple, orange etc and make shakes by adding milk and ice to their nectar. Honey can also be used instead of adding sugar to these shakes which is very useful for human health. Honey can also be added to water and this drink helps control fats in your body and you will feel revitalized and fresh if you use it daily before taking breakfast.

Guava and grapes juices are also very useful during summer time. Apart from these traditional beverages you can always experiment with unconventional drinks such as grapefruit, pineapple and papaya juices etc. These are really healthy and good for skin.

So this summer try unconventional drinks and beverages and beat the heat. :)

Sunday, July 28, 2013

Altaf Nawaz Brothers?

by Saira B. Shah

Whatever politics is, we as a nation do not know or may be don't want to know. The parties that become great enemies at the time of elections seem so friendly when the ruling party invites them. Not only they forget their words and statements which they issued prior to election but also forget the impact they created. They laughingly welcome the ruling party and present flowers to them. Then the leadership dine together and laughingly appologize to the ruling party assuring them their loyalty and cooperation till next election. The public always becomes a fool and prey to these predators, through their emotional statements and promises of bright future. The one thing that I never got is why our public does not understand the game of these fooling around parties? Why they always hope that may be this time things will get better? Why they do not understand the motives of these theives?

Now look at Nawaz and his party, what did they do? When everyone wanted Altaf Hussain to be brought back to Pakistan and let the jurisdiction take place and arrest him, a convoy of the ruling party went to meet MQM at Nine Zero and MQM exchanged warm greetings and presented flowers to them as a sacred ritual (I call it ritual because they did the same with other ruling parties as well).
And before the meeting was over Altaf sent his heartiest sentiments to Sharif Brothers welcoming and congratulating them on their establishment. The message that he sent you can read as well, he said: '' Whatever I & MQM could do for the betterment of Pakistan and its nation we would and we will work for the progress of the country as well as ensure that peace, prosperity and safety prevails within Pakistan. Not only this but also he asked the Sharif Brothers to let bygone be bygone , from now on he will consider them his Brothers and to forget past misunderstandings (basically the misunderstanding was that Sharif Brothers took over Altaf's seat :P).

Ironically he added that he and MQM will be an ally of the government in catching those theives and the enemies who want to rid Pakistan off of its Nuclear weapons and leave it defenceless ( I just want to ask one question here: who was threatening the government to hi-jack Karachi and make several pieces of this country? No Not exactly him right).

And the ruling party has accepted the statement as an appology and decided to let MQM be part  of the established government as it has remained a part of the previous governments as welll. MQM has been a part of the government in PPP's era and previously in CE Musharf's Coup rule as well.

Well, congrats to the nation, two brothers have befriended each other yet again.  Whether this brotherly relation remains till the voting for presidential elections or goes beyond that time will show us. Whatever they want to achieve from it the public will know soon.

Do Not Fret, for once there will be peace. Insha Allah

Welcome Pakistani Patriots

Thank you and welcome to Pak-Patriots Blog. We aim at making more audiences who are patriots, love thier country, support Pakistan Army, and help develop good Pakistanis. We welcome those who love the freedom they enjoy in this Pak-Land, who care about the humanity and the religious and cultural norms that we all share and respect others views whether they agree or not.

مسلمانان ہند کی آواز

 


مسلمانان ہند کی آواز

 کوئی بھی چیز جو باآسانی مل جاتے اس کی قدر و قیمت ہماری نظروں میں کم ہوتی ہے. پھروہ لوگ جو کہ کسی درجے ذہین ہیں اس وقت احساس کرلیتے ہیں جب کسی اور کو اس نعمت سسے محروم پاتے ہیں اور جو باقی ہیں ان کو تب ہی احساس ہوتا ہے جب وہ خود اس نعمت سے محروم ہوں.
میرے ایک عزیز دوست کےصاحبزادے جو کہ رواں سال الیکٹریکل انجینئیر بننے والے ہیں ملکی اور بین الاقوامی سیاست اور اس پر بحث و مباحثے میں کافی دلچسپی رکتھے ہیں. پچلھے دنوں انکے ساتھ ایک نشست کا اتفاق ہوا ، اس جوان کے خیالات اور نظریات سن کر ایک لمحے کو تو یوں لگا جیسے میں بال ٹھاکرے سے مخاطب ہوں. اپنی پاک سرزمین سی اس قدر نفرت کا موجب کیا ہوسکتا ہے ماسوا ئے اس پروپیگنڈے کے جو بھارت نواز میڈیا پاکستان کے جوانوں میں پھیلارہا ہے. 

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں نعمت آزادی کا احساس ہی نہیں ورنہ ہم خریدی ہوئی میڈیا کے جھانسے میں آکر اس عظیم نعمت کا کفر کبھی نہ کرتے ہماری میڈیا پر چمکتے دمکتے دکھائی دینےوالے ہندوستان میں صرف کترینہ اور سلمان ہی رہتے ہیں یا پھر  Bollywood کے چند اور رقاص اور بھانڈ جبکہ حقیقی ہندوستان کا حال یہ ہے کہ ہماری آبادی سے زیادہ لوگ وہاں فٹ پاتھ پر زندگی بسر کر رہے ہیں. اس ہندوستان میں زندگی سستی اور روٹی مہنگی ہے. وہاں کے مسلمان اچھوت سے بھی بدترزندگی گزار رہے ہیں. کئی دہائیوں تک ہندؤں کی ظلم و بربریت برداشت کرنے کے بعد اب وہاں کے مسلمان سلطان صلاح الدین اویسی کے صاحبزادے اکبر اویسی کی قیادت میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ہندؤں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے مگر افسوس کہ ہماری میڈیا کے کانوں تک اس مرد مجاہد کی آواز نہیں پہنچ رہی. 

(اکبر اویسی کی ویڈیو دیکھنے کے لیے کلک کریں ) 

آج ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہیں لیکن ذہنی طور پر بد ترین غلامی میں ہیں. آج اہل علم و اہل منصب کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنی جوان نسل کی اعلی ترین ذہنی تربیت کریں ورنہ آنے والے دور میں ہم تاریخ کے چند اوراق کے سوا کچھ نہ ہونگے ہمارا نام و نشان بھی مٹ جائیگا.



Saturday, July 27, 2013

جوش خطابت



جوش خطابت

ہم پاکستانی بہت جذباتی ہیں ہر کام، ہرچیز، ہرفیصلےکےساتھ جذباتی طور پر وابسطہ ہوتے ہیں اور یہی امید کرتے ہیں سب کچھ ہماری توقعات کے مطابق ہو. کرکٹ کو ہی دیکھ لیں پاکستان کے مقابل ہم کسی کی جیت برداشت ہی نہیں کرسکتے. اگر پاکستانی ٹیم ہار جاۓ تو اس پر طرح طرح کے الزامات لگاکرکسی طوراپنےغصے کوکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اور جیت جائیں تو ہر ہر کھلاڑی کی تعریف کرتے رهینگے یہ بھول کر کہ پچھلی ہار پر ان بچاروں کی شان میں کیا کچھ نہیں کہاتھا. زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی ہم کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں.

حالیہ دنوں میں الطاف حسین کی بارے میں آ نے والی خبروں سے ایک عام پاکستانی یہی اندازہ لگا رہا تھا کہ شائد اب ان کو کوئی پناہ دینے والا نہیں پروہ کیاکہتے ہیں کہ دوست وہ جو مصیبت میں کام آۓ. یھاں تو بات دوستی سے بھی آگے کی ہے کئی بار الطاف حسین میاں صاحب کو بڑا بھائی کہہ چکے ہیں. اب اگر میاں صاحب نے بڑا بھائی بن کر چھو ٹے بھائی کو گلے لگایا تو اس پر اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے.

     کچھ احباب کا یہ کہنا کہ میاں صاحب کے اس طرز عمل سے انکے کافی سارے ووٹرز ناراض ہونگے. تو بھئی اول تو یہ کہ الیکشن پانچ سال بعد ہونگے، دوسری بات یہ کہ پاکستان میں کسی حکومت کی  کارکردگی خواہ کچھ بھی ہو کم از کم اگلی دفعہ حکومت میں رهنے والی پارٹی اپوزیشن میں ہی ہوتی ہے. ان سب عوامل کو ذہن میں رکھنے کی بعد میاں صاحب کی پالیسیوں پرغورکریں تو آپ پران کی دور اندیشی عیاں ہوجائیگی، رہی بات  میاں صاحب کے اس انٹرویو کی جسمیں انہوں نے  MQM  کو دہشت گرد قرار دیا تھا تومیں توصرف اتنا ہی کہونگا کہ بھئی آخرجوش خطابت بھی کوئی چیز ہے.     

  

تمام محب وطن پاکستانیوں کو  خوش آ مدید.