Monday, July 29, 2013

معاشرتی کینسر

معاشرتی کینسر 
آج سے چند سال پہلے جب میرے والد صاحب کو کینسر لاحق ہوا تو اس موذی مرض اور اسکی تباہ کاریوں کے بارے میں میری معلومات میں کچھ اضافہ کرگیا. بفضل خدا میرے والدصاحب اب مکمل صحتیاب ہیں لیکن جب بھی انکی اس بیماری کا تذکرہ آتا ہے تو چند سال پہلے کے کرب کو کچھ لمحوں کیلیے ذہن پر مسلط کردیتا ہے. ڈاکٹروں کے مطابق کینسر دراصل خلیوں کے بے تحاشہ تقسیم کا عمل ہے یہ خلیے ہمارے جسم کے دفاعی نظام کو بتدریج کمزور کرنا شروع کرتے ہیں نیز یہ کہ یہ ہماری جسم سے ہی غذاء حاصل کرتے ہیں جبکہ یہ مکمل طور پر ہمارے جسمانی نظام سے آزاد ہوتے ہیں. اگر بروقت انکو روکا یا کاٹ کر علیحدہ نہ کیا جائے تو یہ ہمارے دفاعی نظام پر حاوی ہوکر ہمیں موت کی نیند سلادیتے ہیں. 
جسطرح جسم کا کینسر جسمانی نظام کو تباہ کردیتا ہے بلکل اسی طرح معاشرتی کینسر معاشرتی نظام کو تباہ کردیتا ہے. اس کینسر کا طریق کار بھی وہی ہے یہ معاشرے کوبے تحاشہ تقسیم کردیتا ہے اول لسانی بنیاد پر سندھی، بلوچی ، پھٹان، پنجابی اور کشمیری کے نام پر اور جب وہاں اپنے پنجے گاڑھ لیتا ہے تو پھر شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، وہابی کے نام پر اور یوں یہ تقسیم بٹ، اعوان، گجر، آرائیں تک پہنچ کر معاشرے کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے.
معاشرے کے یہ کینسر زدہ خلیے بھی ملکی نظام کا خوں چوس کر ہی پلتے ہیں اور رفتہ رفتہ ملک کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں. یہ کینسر زدہ خلیے بھی ملکی دفاعی نظام پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں. اور یہ بھی مکمل طور پر ملک کے قانون سے آزاد ہوتے ہیں.
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی بڑ ھوتری کو روکا جائے اور یا پھر ان کو جڑھ سے ہی اکاڑ کر پھینک دیا جائے ورنہ اللہ نہ کرے یہ کینسر اس پاک سرزمین کونابود کر دیگا.   

1 comment: