Monday, August 18, 2014

پاکستان اور اسرائیل کا مستقبل (حصہ پنجم) سیدنا سلیمان علیہ سلام اور فری میسن

پاکستان اور اسرائیل کا مستقبل (حصہ پنجم) سیدنا سلیمان علیہ سلام اور فری میسن 


قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سیدنا سلیمان علیہ سلام کو بہت فہم و فراست اور بادشاہی عطا فرمائی تھی ہوا اور جنات کو انکا مطیع و فرمانبردار کیا تھا نیز ان کو جانوروں کی بولی کی بھی سمجھہ عطا کی تھی. اتنی زبردست بادشاہی الله نے پھر کسی اور کو عطا نہیں کی.
قرآن مجید میں سورہ سباء میں الله تعالیٰ نے سلیمان علیہ سلام کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے الله نے ہوا کو انکی سواری بنایا تھا اور جنات الله کے حکم سے انکے لیے تعمیرات کا کام کرتے تھے یعنی وہ معمار تھے اس سے اس نظرییے کی بھی تائید ہوتی ہے جو ہم نے اہرام مصر کی تعمیر کے بارے میں بیان کیا کہ شائد شیاطین (جنات ) نے فرعون کی مدد کی تھی. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنات فن تعمیر میں اچھی خاصی مہارت رکتھے ہیں.
فی زمانہ لوگ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ شائد جنات کو علم غیب حاصل ہے سورہ سباء میں  سیدنا سلیمان علیہ سلام کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نےاسکی نفی فرمائی کیونکہ  سیدنا سلیمان علیہ سلام کسی تعمیر کے دوران جنات کی نگرانی کر رہے تھے کہ وفات پا گئے مگر الله نے جنات سے پوشیدہ رکھا اور جب وہ اپنا کام کرچکے تو انکی عصأ کو دیمک نے کھا کر کمزور کردیا اور انکی جسد مبارک گرگئی تب جنات کو معلوم ہوا کہ آپ علیہ سلام وفات پا چکے ہیں.
 سیدنا سلیمان علیہ سلام نے سبا کی ملکہ بلقیس (شیبا )  کو سورج کی پرستش چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلایا اس واقعہ کی تفصیلات ابن کثیر میں ملاحظہ کریں. سبا کے باسیوں اور انکی املاک کو الله نے سیلاب کی ذریے برباد کریا تھا.
یہاں چند ضروری نکات ذہن نشین کرلیں.
١: سیدنا سلیمان علیہ سلام   سیدنا داودعلیہ سلام کے صاحبزادے ہیں اور بنی اسرائیل کے ایک جلیل قدر پیغمبر ہیں آپ کا زمانہ قریبا ایک ہزار سال قبل از مسیح ہے جبکہ  سیدناموسیٰ علیہ سلام آپ علیہ سلام تقریبا پانچ سو سال پہلے گزر چکے ہیں.
٢: ایک بشر یعنی  سیدنا سلیمان علیہ سلام کو الله تعالیٰ نے جنات (شیاطین ) پر حاکم بنایا تھا جو ان سے بغیر کسی اجرت کے عبادت گاہیں، مجسمے، اور پانی وغیرہ جمع کرنے کے تالاب بنوایا کرتے تھے جسکا ظاہر ہے ابلیس کو بڑا غصہ ہوگا.
٣: یہ اسی بنی اسرائیل کے نبی تھے جسکے نبی  سیدنا موسیٰ علیہ سلام بھی تھے جس سے شیطان کی پرانی دشمنی تھی.
٤: سباء کے لوگ بھی سورج کی پرستش کیا کرتے تھے یعنی ان پر بھی شیطان نے کافی محنت کی تھی.
٥: یہ جنات (شیاطین ) معمار یعنی میسن تھے جن کو کوئی اجرت یا معاوضہ نہیں ملتا تھا مطلب فری میں کام کیا کرتے تھے کیونکہ الله نے انکو زبردستی سیدنا سلیمان علیہ سلام کے تصرف میں دیا تھا.
 سیدنا سلیمان علیہ سلام کی دور میں جنات اور انسانوں کا میل جول بڑھا آپ علیہ سلام کی وفات کے بعد یہ آزاد ہو گئے اور آپ کی قوم سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ادھر لوگ بھی جنات کے حیرت انگیز کارنامے دیکھہ چکے تھے ان کی بھی خواہش تھی کہ شیاطین انکی بھی اسی طرح مدد کریں تاکہ انکے کام بھی آسان ہوں یہی خواہش ان کو لے ڈوبی شیاطین نے کام کے بدلے انکو اپنی عبادت پر مجبور کردیا اور ان شیطان پرستوں نے عام لوگوں سے اپنے آپ کو مخفی رکھنے کےلیے اشاروں کناروں کا استعمال شروع کیا یعنی ہاتھ ملانے کا عجیب انداز یا کوئی انگھوٹی یا اور نشانات تاکہ وہ عام لوگوں میں رہ کر ایک دوسرے کو پہچان سکیں. شیاطین کی عبادت کے بدلے انہوں نے دنیاوی دولت وغیرہ حاصل کی اور اسی دولت کے بل بوتے انہوں نے معاشرے میں بظاہر ایک اعلی مقام حاصل کیا. یہ ان مفت کے معماروں (فری میسن ) کا بدلہ تھا جو شیطان نے ان سے لیا.
( مفت کے معماروں ) فری میسن کے اشارے اور دوسرے نشانات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں وہاں دیکھہ لیں.
سورہ سبا آیت ٤١: وہ (فرشتے) کہیں گے تو پاک ہے تو ہی ہمارا دوست ہے نہ (کہ ) یہ بلکہ یہ جنات کو پوجا کرتے تھے. اور اکثر انہی کو مانتے تھے.

جاری ہے 


Tuesday, August 12, 2014

پاکستان اور اسرائیل کا مستقبل (حصہ چہارم )اہرام مصر اور زاینسٹ



پاکستان اور اسرائیل کا مستقبل (حصہ چہارم )اہرام مصر اور زاینسٹ

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اور ہامان کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے ( ترجمہ ) اور فرعون نے کہا اے اہل دربار میں تمہارا اپنے سوا کسی کو خدا نہیں جانتا ( یعنی میرے سوا تمہارا کوئی اور خدا نہیں ہے )تو ہامان میرے لیے گارے کو آگ لگوا ( کر اینٹیں پکوا ) دو پھر ایک (اونچا ) محل (مقام ) بنادو تاکہ میں موسیٰ کے خدا کی طرف (لڑنے کے لیے ) چڑھ جاؤں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں. 

 یہ اہرام فرعون کی انتہائی سرکشی اور شیطان کی اس سے محبت کا ثبوت ہیں غالباً شیاطین نے ہی انکی تعمیر میں فرعون کی مدد کی تھی. شیطان کے لیے یہ اہرام اس سنہرے دور کی نشانی بھی ہیں جب وہ فرعون کے ذرئیے دنیا پر حکومت کررہا تھا. 
ایک زمانے سسے ابلیس نے لوگوں کو سورج کی پرستش پر لگا یا تھا مصر، یونان اور روم کے علاوہ بھی دنیا کے کئی معاشروں میں سورج کی عبادت ہوا کرتی تھی. یوں اہرام مصر کی طرح سورج کو بھی ابلیس اپنی کامیابی کی نشانی گردانتا ہے.
مستقبل میں ابلیس فرعون کے طرز کے کسی بادشاہ کی پیروی کے لیے لوگوں کوذہنی طور پر تیار کر رہا ہےایک ایسا بادشاہ جو فرعون کی طرح خدائی کا دعوہ کریگا جو اسی کی طرح قتل و غارت کریگا اسی کی طرح سرکش ہوگا اسی کی طرح دنیا کے وسائل پر قابض ہوگا مگر اس دفعہ ابلیس اپنی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتا وہ اسکے آنے سے پہلے ہر ہر لحاظ سے تسلی کر رہا ہے کہ اسکو دنیا میں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے.اسکے آنے سے پہلے اسکی فوج تیار ہو . دنیا کی تمام دولت اسکے قبضے میں ہو اور پوری دنیا متحد ہوکر اسکو خوش آمدید کہے.
زیر نظر تصویر میں امریکی ڈالر میں آپ ابلیس کی ان تینوں نشانیوں کو دیکھہ لیں یعنی اہرام سورج اور آنے والے کانے دجال کی آنکھہ.


دجال کے بارے میں ہم پچھلی تحریروں میں ذکر کر چکے ہیں یہاں صرف ان زاینسٹ یہودیوں اور فرعون کے تعلق کو مختصرا بیان کرنا مقصود تھا.
دجالی قوتیں اس وقت پوری دنیا میں اپنے ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں ان لوگوں کا تعلق بظاہر کسی بھی مذہب فرقے سیاسی جماعت سے ہوسکتا ہے یہ ٹی وی پر معصوم نظر آنے والے اداکار بھی ہوسکتے ہیں کسی مذہبی جماعت کے پیشوا بھی اور سیاست دان بھی ان کا مقصد صرف کانے دجال کے لیے راہ ہموار کرنا ہے.
انہوں نے نیٹو کی صورت میں دجالی فوج بنائی.
یو - این - او کی صورت میں پوری دنیا کی ایک مرکزی اسمبلی بنائی.
میڈیا کے ذریے ون ورلڈ اور گلوبل ویلج کے اصطلاحات عام کیے.
اب وہ اس بات کی لیے کوشاں ہیں کہ دنیا بھر میں ایک ایسی زبان ( انگلش) ہو جو سب کے لیے تعلیم روزگار اور رابطے کا کام کرسکے.
پوری دنیا میں بس ایک ہی قانون ( نیو ورلڈ آرڈر )ہو.
دنیا بھر میں صرف ایک ہی کرنسی ہو.( یورو اسی کی ایک تجرباتی شکل ہے )
تا کہ لوگ دجال کے آنے سے پہلے اسکے نظام سے آشنا ہوں اور اس کے آنے پر دل و جان سے اسکا استقبال کریں. 
(جاری ہے )













Friday, August 8, 2014

پاکستان اور اسرائیل کا مستقبل (حصہ سوم ) ابلیس اور دجالیت

پاکستان اور اسرائیل کا مستقبل (حصہ سوم ) ابلیس اور دجالیت


پچھلی تحریر میں ہم نے دجال کے بارے میں چند احادیث کا حوالہ دیا تھا تاکہ اس کے کردار اور فتنہ کے بارے میں آپ کو آگاہی ہو.
آج کی تحریر میں ہم انسانیت کے سب سے بڑے اور ازلی دشمن ابلیس کی انسان دشمنی اور دنیا میں جاری خونریزی پر مختصر بات کرینگے-
قران شریف میں سورہ بقرہ میں سیدنا آدم علیہ سلام کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوے الله نے فرمایا " اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے" (٢:٣٠) 

زمین پر انسان کے آنے سے پہلے یہاں جنات آباد تھے. ان پر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ آپس میں لڑنا جگھڑنا شروع ہوگئے اور اس حد تک سرکش ہوگئے کہ ایک دوسرے کا خون بہانے اور قتل کرنے سے بھی نہ کتراتے. فرشتوں نے الله کے حکم سے ان میں جو بڑے سرکش تھے انکو قتل کردیا اور باقیوں کو زمین میں منتشر کردیا. انہی میں سے ایک عزازیل تھا جو اس سارے ہنگامے سے یکسو الله کی عبادت کیا کرتا تھا. فرشتوں کی سفارش پر الله نے اسکو بڑی عزت کا مقام عطا کیا اور اسکو جنت میں فرشتوں کیساتھ رہنے کی اجازت دی. عزازیل نے اور اہتمام اور زور شور سے الله کی عبادت شروع کی تاکہ الله جب دوبارہ زمین کو آباد کرے تو اسکی سرداری اور بادشاہی اسکے سپرد کردے مگر الله نے تخلیق آدم کا ارادہ ظاہر فرمایا. مذکورہ آیت میں فرشتوں کا یہ سوال کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے؟ دو وجوہ کی بنا پر ہوسکتا ہے یا تو انہوں نے انسان کو جنات پر قیاس کیا کہ جسطرح انہوں نے زمین میں فساد برپا کیا تھا اسی طرح شائد انسان بھی کرے یا پھر عزازیل (ابلیس ) نے فرشتوں کو کہا ہوگا کہ انسان بھی اسی طرح فساد کریگا تاکہ الله تعالیٰ آدم کی تخلیق کی بجائے ابلیس کو ہی نائب بنادے مگر اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ذریت آدم سے آباد کرنے کا ارادہ کیا تھا جو ہوکر ہی رہا اور یوں ابلیس کے دل میں آدم علیہ سلام کے لیے بغض پیدا ہوا اور اسی بغض کی بنا پر اسنے سجدے سے انکار کیا جسکی سزا یہ ملی کہ وہ ہمیشہ  کے لیے لعنتی ٹہرا.

اس واقعہ سے ابلیس کے ہاتھ دو فرمولے آئے.پہلا یہ کہ کسی معاشرے کی کامیابی کا دارومدار ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی اعمال پر ہوتا ہے کوئی خود کتنا بڑا عبادت گزار اور عالم کیوں نہ ہو جب تک وہ دوسروں کو نیکی کا حکم نہ کرے اور برائی سے نہ روکے معاشرے میں سنوار نہیں آسکتا.

دوسرا یہ کہ جب قتل و خون کرنے پر الله تعالیٰ جنات سے اقتدار چیھن سکتا ہے تو وہ انسان سے بھی اقتدار چیھن لے گا اگر انسان بھی آپس میں ایک دوسرے کا نا حق قتل و خون کرنا شروع کردیں.

لعنتی ابلیس نے ہر زمانے میں آدم علیہ سلام کی اولاد کو آپس میں لڑوانے کی کوششیں کی ہیں اور زمین کو فساد سے بھردیا ہے مگر الله نے ابلیس کے نمرود کے لیے ابراہیم علیہ سلام اسکے فرعون کے لیے موسیٰ علیہ سلام اسکے جالوت کے لیے داؤد علیہ سلام  اسکے ابو جہل ، ابی لہب کے لیے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیج کر ابلیسی فتنہ کا قلع قمہ کردیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد الله نے مجاہدین اسلام کو یہ توفیق دی کہ وہ ابلیسی فتنوں کیخلاف ڈٹ گئے.
ابلیس ہزارہا تجربات کے بعد  اس نتیجے پر پہنچا کہ جب تک الله کے بندے اسکی راہ میں لڑتے رهینگے اسکی دال گھلنے والی نہیں. یوں اسنے ہر معاشرے میں ایسے لوگ پیدا کیےجو نہ صرف خود مذہب سے بیزار ہوں بلکہ دوسروں کو بھی مذہب سے بیزاری کا درس دیں ا بلیس اس مقصد میں مغربی معاشرے میں اچھا خاصا کامیاب رہا لیکن مشرق خصوصا مسلمانوں میں اسے قدرے مزاحمت کا سامنا تھا جس کنے لیےاس نے اولا میڈیا کا سہارا لیا اور مجاہدین کو پورے دنیا میں بدنام کرنا شروع کیا اور پھر اپنے پیروکاروں کے ساتھ ملکر ایسی تنظیمیں بنائی جو خود کو مجاہدین کہہ کر اسلام اور با کردار مجاہدین کو بدنام کریں. ان تنظیموں کے ذرئیے پہلے کسی علاقے میں بد امنی پیدا کی جاتی ہے پھر اپنے پیروکاروں کی فوج بھیج کر اس پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو زنا شراب میں لگا کر ترقیافتہ ہونے کا سند دے دیا جاتا ہے. ماضی میں ابلیس نے  اپنے جنات کیساتھ ملکر فرعون کی بہت مدد کی تھی وہ فرعون کے ذرئیے پوری دنیا پر شیطانی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا مگر الله نے موسیٰ علیہ سلام کے ذرئیےابلیس اورفرعون کو شکست دی فرعون تو مر گیا مگر ابلیس نے موسیٰ علیہ سلام کے پیروکاروں کو اپنا نشانہ بنانا شروع کیا.سورہ بقرہ میں الله نے اسکی تفصیل بیان کی ہے. بنی اسرائیل نے تین تین پیغمبروں کی موجودگی میں ہامان کے بنائے ہوئے بچھڑے کی عبادت کی. الله تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کردیا.جہاد سے انکار کیا الله کی نعمت من و سلویٰ کو چھوڑ کر پیاز،لہسن اور مسور کھانے کی فرمائش کرڈالی.الله کے کلام کو بدل ڈالا.ممنوعہ دن مچھلی کا شکار کیا.الله کے برگزیدہ پیغمبروں کو نا حق شہید کیا.انکی اس ہٹ درمی کی وجہ سے الله تعالیٰ ان پر غضبناک ہوا کہ اللہ کے سیدھے رستے کو چھوڑ کر شیطان کے رستے لگ گئے تو الله نے بھی ان کو شیطان کے حوالے کردیا. آج یہودی علم رکنھے کے باوجود گمراہ ہیں اور مسیح روح اللہ علیہ سلام کی بجائے مسیح دجال کو اپنا نجات دھندہ مان رہے ہیں. (جاری ہے )


  

Monday, August 4, 2014

پاکستان اور اسرائیل کا مستقبل (حصہ دوم ) دجال کی حقیقت

 

پاکستان اور اسرائیل کا مستقبل (حصہ دوم )

گزشتہ تحریر میں ہم نے اسرائیلی زاینسٹ یہودیوں اور ان کے  نجات دہندہ دجال کا  مختصر ذکر کیا تھا.

یہاں میں چند احادیث کا حوالہ دونگا جس سے دجال کی حقیقت آپ کے سامنے واضح ہوجائیگی.
١: "حضرت عبدللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا " یقینا`` اللہ تعالیٰ تم پر مخفی نہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں جبکہ مسیح دجال داہنی آنکھہ سے کانا ہوگا اور اس کی وہ آنکھہ ایسی ہوگی جیسے انگور کا پھولا ہوا دانہ" (بخاری و مسلم )

اس حدیث سے چند باتیں واضح ہیں ١: دجال داہنی آنکھہ سے کانا ہوگا. ٢: وہ خدائی کا دعوہ کریگا. ٣: وہ عیب دار ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ تمام عیبوں سی پاک ہے.

 ٢: حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا " کوئی ایسا نبی نہیں گزرا جسنے اپنی امت کو جھوٹے کانے (یعنی دجال) سے نہ ڈرایا ہو آگاہ رہو، دجال کانا ہوگا اور تمہارہ پرودگار کانا نہیں، نیز اس(دجال) کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر لکھا ہوا ہوگا "  (بخاری و مسلم )

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنہ دجال کوئی معمولی فتنہ نہیں تبھی تو اللہ کے سارے انبیا علیھم السلام نے اپنی امتوں کو اس سے ڈرایا. یہاں یہ بھی  واضح رہے کہ موجودہ دور میں اسرائیلی زاینسٹ یہودی خود کو سیدنا موسیٰ علیھ السلام اور تورات سے منسوب کرتے ہیں جبکہ حدیث میں  واضح بتایا گیا ہے کہ ہر نبی نے اپنی امت کو ڈرایا ہے جسکا مطلب ہے کہ ان  اسرائیلی زاینسٹس کو تورات اور سیدنا موسیٰ علیھ السلام سے کوئی نسبت نہیں ورنہ دجال کی پیروی کی بجائے اس کی مخالفت کرتے. اس حدیث میں ایک اور بڑی نشانی بیان کی گئی ہے وہ ہے دجال کے ماتھے پر ک ف ر کے حروف جوکہ اسکی پیشانی پر آنکھوں کا درمیان لکھے ہونگے- 

٣: حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "دجال اس حالت میں ظاہر ہوگا کہ اس کے ساتھہ پانی ہوگا اور آگ ہوگی، تاہم لوگ جس چیز کو پانی سمجھیں گے وہ حقیقت میں جلانے والی ہوگی اور جس چیز کو لوگ آگ سمجھیں گے وہ حقیقت میں ٹھنڈہ اور شیریں پانی ہوگا پس تم میں سے جو شخص اس کو پاۓ تو اس کو چاہیے کہ اس چیز میں گرنا پسند کرے جس کو وہ آگ کی صورت میں دیکھے ( کیونکہ وہ آگ نہیں ہوگی بلکہ نہایت شیریں اور پسندیدہ پانی ہوگا ) " (بخاری و مسلم )

ہمیں اس حدیث کے ظاہری اور پوشیدہ دونوں معنوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے.
یا تو یہ معنی ہیں کہ دجال اپنی مخالفت کرنے والوں پر بموں کی آگ برسائیگا اور اس خبیث کے ہاتھوں شهید ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت کے چشموں کا ٹھنڈا پانی پلائیں گے جکہ دجال کے ساتھی جو دنیا میں دجال کے ساتھہ شراب پینے والے ہونگے وہ آخرت میں جہنم کی آگ میں ہونگے. ( یہ تشریح قران کے موافق بھی ہے )

اور یا یہ معنی ہونگے کہ دجال اپنی شبدہ بازی سے آگ کو پانی اور پانی کو آگ بنا کر پیش کریگا.

 یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسکی آگ حقیقی ہو مگر اللہ تعالیٰ اس آگ سے جلانے کی تاثیر ہی ختم کردے جسطرح سیدنا ابراہیم علیھ السلام کے لیے نمرود کی آگ کو ٹھنڈا کردیا تھا اور پانی میں آگ کا اثر پیدا کردے.  مگر اس سے یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ دجال کا پانی پینے کے بعد لازمی لوگ ہلاک ہونگے یا جلینگے اور ان کا انجام دیکھہ کر پھر اسکا پانی کوئی نہ پیئے جبکہ دجال ایسا کبھی بھی نہیں چاہیگا. (فقط واللہ العالم) 

مختلف احادیث سے دجال کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں اگر ان کا اجماعی جائزہ لیا جائے تو دجال کی درجہ ذیل خصوصیات اور نشانیاں واضح طور پر سامنے آتی ہیں-
١: دجال جوان ہوگا.
٢: اسکے بال گھنگھریا لے ہونگے جو کسی درخت کی جڑ کی مانند ہونگے.
٣: اسکا جسم مظبوط اور رنگ سرخی مائل ہوگا.
٤: وہ داہنی آنکھہ سےاندھا ہوگا.
٥: دجال کے ماتھے پر ک ف ر کے حروف ہیں جواسکی پیشانی پر آنکھوں کا درمیان لکھے ہونگے.
٦: وہ شام اور عراق کے درمیانی راستے سے نمودار ہوگا.
٧: ایران کے شہر اصفہان کے ستر ہزار یہودی اسکے پیروکار ہونگے.
٨: وہ زمین میں دائیں بائیں فساد پھیلائے گا.
٩: شروع میں مصلح یا پیغمبر ہونے کا اور بعد میں خدائی کا دعوہ کریگا.
١٠: دنیا کے تمام شیاطین اس کے ساتھہ ہونگے جو اسکے حکم پر کبھی کسی مردے کا روپ دھارینگے کبھی کسی جانور کا.
١١: زمین کے خزانے اسکے پھیچے پھیچے ہونگے.
١٢: آسمان سے بارش برسائیگا زمین سے فصل اگائیگا.
١٣: مردوں کو زندہ کریگا.
١٤: وہ ملک ملک شہر شہر پھریگا مگر مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں داخل نہیں ہوسکے گا.
١٥: مدینہ کے باہر ایک کھارے علاقہ میں پڑاؤ ڈالیگا. (دجال پیلس مدینہ کے قریب جبل حبش کے اوپر تعمیر ہوچکا ہے )
١٦: وہاں سسے شام کا رخ کریگا. ( نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اسرائیل نہیں تھا.)
 ١٧: عیسیٰ علیہ سلام اس کو باب لد کے مقام پر پکڑینگے تو دجال ان کے سامنےایسے ہوجائیگا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے.
مذکورہ بالا احادیث اور نشانیوں سے آپ بخوبی دجال کی صورت و خصلت اور اس شدید فتنہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو اسنے دنیا میں برپا کرنا ہے. 
دجال کے بارے میں بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ اسرائیلی یہودیوں کے اس نجات دھندہ کو پہچان لیں جسکا وہ انتظار کر رہے ہیں اور جسکی حکومت قائم کرنے کے لئیے انہوں نے  یو - این - او اور نیٹو جیسے ادارے قائم کئیے جو نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے لئیے کام کر رہے ہیں.
دجال کا سب سے بڑا مدد گار ابلیس بذات خود دجال کے پیروکار یہودیوں کی رہنمائی کر رہا ہے (جاری ہے)